فریب کیا ہے؟ بتاؤں تم کو؟ سنو قسم سے! بِنا تمہارے !!!! یہ مُسکرانا... یہ سانس لینا فریبِ ہے سب... میں جی رہا ہوں مگر نہیں ہوں میں سچ میں زندہ عجب تماشا ہے اور دکھاوا ہے ہنس رہا ہوں مگر نہیں ہے حقیقتاً یہ... اصل میں مر تو تبھی گیا تھا میں مجھ سے تم جب الگ ہوۓ تھے بڑی ہی مشکل گھڑی تھی مجھ پر یہ سوچ کر کہ بنا تمہارے! یوں جیتے رہنا... تڑپتے رہنا... ترستے رہنا... بھلا یہ جینا بھی کیا ہوا کہ؟ ہر ایک موسم ! ہر ایک رت میں... اداسیوں کا سماں بندھا ہو... لبوں پہ بندش ہو لفظ تک کی! کہ رتجگوں کو ہمیشگی ہو میں ڈر کے مارے لٹک کے پنکھے سے اس اذیت سے بھاگ جاتا.... مگر وہ کیا کہ.. جڑے ہیں مجھ سے کچھ اور رشتے جو میرے جینے سے جی رہے ہیں جو میرے مرنے سے مر چلیں گے میں اپنی ماں کا اداس چہرہ... وہ زرد آنکھوں سے! آنسوؤں کی قطار لمبی کو... سوچتے ہی سنبھل گیا تھا! اتر گیا تھا!!! گلے سے رسی اتار دی تھی... اب اپنے اندر میں لاش اپنی کا یوں تو کرتا ہوں روز ماتم .. مگر میں کاشف دکھائی دیتا ہوں اک فریبی... سنائی دیتی ہیں مجھ کو چیخیں کہ کوئی مجھ کو پکارتا ہو سنو فریبی؟ سنو فریبی؟ میں سادھ لیتا ہوں چپ م
میں اک گلاس زمیں پر گرانا چاہتا ہوں ہمارے بیچ کی خاموشی بڑھتی جا رہی ہے۔۔۔۔۔