Skip to main content

انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے

انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے
یہ چاہتے تھے مگر کس کے نام پر رہتے؟

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون تھے کہ اپنے گھر رہتے

پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنے
پر اپنے ہم شجروں سے تو باخبر رہتے

بس ایک خاک کا احسان ہے کہ خیر سے ہیں
وگرنہ صورت خاشاک در بدر رہتے

میرے کریم! جو تیری رضا، مگر اس بار
برس گزر گئے شاخوں کو بے ثمر رہتے

Comments

Popular posts from this blog

To my dear mother