کہ میرے دوست کو عادت ہے روٹھ جانے کی
میں تنکا تنکا بناتا ہوں آشیاں اپنا
وہ مجھ سے بات کرے کشتیاں جلانے کی
سبھی کو اس کے لیے میں تو چھوڑتا کیسے
جسے تھی ابتدا سے جستجو زمانے کی
میں حسن و عشق سے ارمان بچ نہیں سکتا
ملی ہے ورثے میں عادت یہ چوٹ کھانے کی
اسے تھا شوق کہ مجھ کو وہ چھوڑ جائے گی
مجھے تو ضد تھی سبھی دوریاں مٹانے کی
میں اس کی یاد میں اکثر نڈھال ہوتا تھا
کہ اس کے سامنے مجبوریاں زمانے کی
ہماری زندگی ہے دھول جس کے قدموں کی
کبھی نہ اس نے کی کوشش مجھے منانے کی
Comments
Post a Comment