Skip to main content

Darakht e jan par azab rut thi na bagh jaghy na phool aye.

درختِ جاں پر عذاب رُت تھی نہ برگ جاگے نہ پھول آئے
بہار وادی سے جتنے پنچھی ادھر کو آئے ملول آئے

نشاطِ منزل نہیں تو ان کو کوئی سا اجرِ سفر ہی دے دو
وہ رِہ نوردِ رہِ جنوں جو پہن کے راہوں کی دھول آئے

وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اُٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں
ہمارے حصّے میں عذر آئے، جواز آئے ، اصول آئے

وفا کی نگری لُٹی تو اس کے اثاثوں کا بھی حساب ٹھہرا
کسی کے حصّے میں زخم آئے، کسی کے حصّے میں پھول آئے

بنامِ فصلِ بہار آذر، وہ زرد پتے ہی معتبر تھے
جو ہنس کے رزقِ خزاں ہوئے ہیں جو سبز شاخوں پہ جھول
!!!..آئے

Comments

Popular posts from this blog

To my dear mother