Skip to main content

Shoq raqs se jub tak unglian nahi kulti

شوقِ رقص سے جب تک اُنگلیاں نہیں کُھلتیں
پاؤں سے ہواؤں کے ، بیڑیاں نہیں کُھلتیں

پیڑ کو دُعادے کر کٹ گئی بہاروں سے
پُھول اِتنے بڑھ آئے ، کھڑکیاں نہیں کھلتیں

پُھول بن کی سیروں میں اور کون شامل تھا
شوخی صبا سے تو بالیاں نہیں کُھلتیں

حُسن کو سمجھنے کو عُمر چاہیے ، جاناں!
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کُھلتیں

چُوم کر جگائے گی,کوئی موجہ شیریں
سُورجوں کے نیزوں سے سیپیاں نہیں کُھلتیں

ماں سے کیا کہیں گی دُکھ ہجر کا ، کہ خودپر بھی
اِتنی چھوٹی عُمروں کی بچیاں نہیں کھلتیں

شاخ شاخ سرگرداں ، کس کی جستجو میں ہیں
کون سے سفر میں ہیں ، تتلیاں نہیں کُھلتیں

آدھی رات کی چپ میں کس کی چاپ اُبھرتی ہے
چھپ پہ کون آتا ہے ، سیڑھیاں نہیں کُھلتیں

پانیوں کے چڑھنے تک حال کہہ سکیں اور پھر
کیا قیامتیں گزریں ، بستیاں نہیں کُھلتیں

Comments

Popular posts from this blog

To my dear mother