Skip to main content
Tak gya hay musalsal safar udassi ka
تھک گیا ہے مسلسل سفر اداسی کا
اور اب بھی ہے میرے شانے پہ سر اداسی کا
میرے وجود کے خلوت کدے میں کوئی تو تھا
جو رکھ گیا ہے دیا طاق پر اداسی کا
میں تجھ سے کیسے کہوں یار ِمہرباں میرے
کہ تو علاج نہیں ہے میری ہر اداسی کا
یہ اب جو آگ کا دریا میرے وجود میں ہے
یہی تو پہلے پہل تھا شرر اداسی کا
Popular posts from this blog
Comments
Post a Comment