Skip to main content

Jub bhi kisi shajar se samar toot kr gera

جب بھی کسی شجر سے ثمر ٹوٹ کر گرا
لوگوں کا اک ہجوم اِدھر ٹوٹ کر گرا

ایسی شدید جنگ ہوئی اپنے آپ سے
قدموں پہ آ کے اپنا ہی سر ٹوٹ کر گرا

ہاتھوں کی لرزشوں سے مجھے اس طرح لگا
جیسے میری دعا سے اثر ٹوٹ کر گرا

اتنی داستان ہے میرے زوال کی
میں اڑ رہا تھا جس سے وہ پر ٹوٹ کر گرا

وہ چاند رات دور چمکتا رہا نوید
بانہوں میں آ کے وقتِ سحر ٹوٹ کر گرا

Comments

Popular posts from this blog

To my dear mother